محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے

محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے
ترے ہونٹوں کی ہر جنبش نئی معلوم ہوتی ہے
یہ کس کے آستاں پر مجھ کو ذوق سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبیں اپنی معلوم ہوتی ہے
محبت ترے جلوے کتنے رنگا رنگ جلوے ہیں
کہیں محسوس ہوتی ہے کہیں معلوم ہوتی ہے
جوانی مٹ گئی لیکن خلش درد محبت کی 
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اسقدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب معلوم نہیں ہوتی ہے


چراغ حسن حسرتؔ