عیادت

 پت جھڑ کے مو سم میں تجھ کو
کو ن سے پھو ل کا تحفہ بھیجو ں
میراآ نگن خا لی ہے
لیکن میر ی آنکھو ں میں
نیک دعا وں کی شبنم ہے
شبنم کا ہر تا را
تیرا آنچل تھا م کر کہتا یے
خو شبو،گیت،ہوا،پانی اور رنگ کو چا ہنے والی لڑ کی
جلدی سے اچھی ہو جا
صبح بہا رکی آنکھیں کب سے
تیری نرم ہنسی کا رستہ دیکھ رہی ہیں


پر وین شا کر

سرِشاخِ گُل

نذرِ احمد ندیم قاسمی


وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دور ،بہت دور ہے مگر اس کی 
لطیف چھائوں
سجل ، نرم چاندنی کی طرح
مرے وجود 'مری شخصیت پہ چھائی ہے
وہ ماں کی باہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مجھ کو سمیٹ لیتی ہے
وہ ایک مشفقِ دیرینہ کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوںسے پتوں کی نرم سر گوشی
کلام کرنے کا لہجہ مجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار ،دھنک پیراہن شگوفے جو
مجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں

بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا

بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا
اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا
اک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن
تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا
کس طرح مری روح ہری کر گیا آخر
وہ زہر جسے جسم میں کھلتے نہیں دیکھا
پروین شاکر

بُندا

کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا مہں 
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو کرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں 
اپنے مہکے ہوئے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگیاں محسوس مجھے
کان سے تو مجھے ہرگز نہ اتارا کرتی 
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتیں
یوں تری قربتِ رنگیں کے نشے میں مدہوش 
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش 
کاش میں ترے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا

مجید امجدؔ

محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے

محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے
ترے ہونٹوں کی ہر جنبش نئی معلوم ہوتی ہے
یہ کس کے آستاں پر مجھ کو ذوق سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبیں اپنی معلوم ہوتی ہے
محبت ترے جلوے کتنے رنگا رنگ جلوے ہیں
کہیں محسوس ہوتی ہے کہیں معلوم ہوتی ہے
جوانی مٹ گئی لیکن خلش درد محبت کی 
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اسقدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب معلوم نہیں ہوتی ہے


چراغ حسن حسرتؔ